Tuesday, December 5, 2017

میں ہی کیوں



میرے ایک عزیز کا چند ماہ پہلے ایک حادثے میں بازو ٹوٹ گیا۔ شروع میں ایک ہڈی و جوڑ کے ماہر سے علاج کرواتے رہے۔ ان کے بازو کا جب پلستر اترا اور ایکسرے ہوا تو پتہ چلا کہ ہڈی ابھی تک ٹوٹی ہوئی ہے۔ پلستر کے باوجود جڑ نہ سکی۔ ان کا آپریشن ہوا اور بازو ٹھیک ہو گیا،وہ اس دوران شدید تکلیف میں رہے۔


ابھی ان کا بازو ٹھیک ہوئے چند روز ہی گزرے تھے کہ ان کو دل کا دورہ پڑا اور وہ کئی روز ہسپتال میں داخل رہے۔ دل کے عارضے سے تقریبا مرجھا سے گئے اور ہر وقت پریشان سے رہنے لگے اور تقریبا ڈپریشن کا شکار ہو گئے۔ وہ پہلے ذیابیطس کے مریض نہ تھے۔ ہر وقت کی ٹینشن نے انہیں شوگر کے مرض کا تحفہ دے دیا۔
ابھی چند دن پہلے میری ان سے ملاقات ہوئی تو حد درجہ مایوس نظر آئے۔ مایوسی نے ان کو شدید طرح سے گھیر رکھا تھا۔ دوران ملاقات انہوں نے بتایا کہ وہ ان دنوں ایک اور مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ ان کے ایک گردے میں پتھری ہے۔ وہ دو روز سے کڈنی سنٹر میں اپنے معالج کے پاس جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ دوا سے ہی یہ پتھری خارج ہو جائے گی۔ یہ بتانے کے بعد ہی میرے وہ عزیز دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ ان کے اس انداز کے رونے نے مجھے بھی غمزدہ کردیا۔ میں نے انہیں تسلی و دلاسا دیا اور مشورہ دیا کہ اس موقع پر وہ اللہ سے اپنا رابطہ بڑھائیں، اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگیں۔ اللہ انہیں اس مشکل سے ضرور نکالے گا۔ وہ روتے روتے آنسوؤں سے منہ دھوتے ہوئے پوچھنے لگے کہ یہ تکلیفیں میرے لیے ہی کیوں؟میں ہی کیوں۔۔۔۔؟
اس موقع پر مجھے کافی عرصہ پہلے کسی جگہ پڑھا ایک واقعہ یاد آگیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ آرتھر آشے امریکہ کا نمبر ون ٹینس پلیئر تھا۔ وہ عوام میں بے حد مقبول تھا، اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ وہ عالمی سطح کا ایک مقبول اور بہترین کھلاڑی تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب آپ کسی بھی شعبہ میں سب سے بہترین کے درجے پر پہنچتے اور عروج حاصل کر لیتے ہیں تو آپ ہر خاص و عام کے ہر دل عزیز بن جاتے ہیں۔ دلوں کی دھڑکن کا درجہ پا لیتے ہیں ۔ اسی طرح آرتھر کو ایک حادثے کے بعد ہسپتال میں انتہائی غفلت کے ساتھ معالجین نے ایڈز کے مریض کا خون لگا دیا گیا، جس کے عوض آرتھر کو بھی ایڈز ہو گیا۔
جب وہ بستر مرگ پر تھا، اسے دنیا بھر سے اس کے چاہنے عالوں اور پرستاروں کے خطوط آتے تھے۔ اس کے ایک مداح نے خط بھیجا، جس میں لکھا ہوا تھا،
" خدا نے اس خوف ناک بیماری کے لیے تمہیں ہی کیوں چنا؟"
آرتھر نے صرف اس ایک خط کا جواب دیا جو کہ یہ تھا۔
"دنیا بھر میں پانچ کروڑ سے زائد بچے ٹینس کھیلنا شروع کرتے ہیں اور ان میں سے پچاس لاکھ ٹینس کھیلنا سیکھ پاتے ہیں۔ ان پچاس لاکھ میں سے پچاس ہزار ہی ٹینس کے سرکل میں داخل ہوتے ہیں۔ جہاں ڈومیسٹک سے انٹرنیشنل لیول تک کھیل پاتے ہیں۔ ان پچاس ہزار میں سے پانچ ہزار ہیں جو گرینڈ سلام تک پہنچ پاتے ہیں۔ ان پچاس ہزار میں سے پچاس ہی ہیں جو ومبلڈن تک پہنچتے ہیں، اور ان پچاس میں سے محض چار ہوتے ہیں جو ومبلڈن کے سیمی فائنل تک پہنچ پاتے ہیں۔ ان چار کھلاڑیوں میں سے صرف دو کھلاڑی ہی فائنل تک پہنچ پاتے ہیں۔ ان دو میں سے محض ایک ہی فاتح قرار پاتا اور ٹرافی اٹھاتا ہے۔ یاد رہے کہ وہ ٹرافی جیتنے والا پانچ کروڑ میں سے چنا جاتا ہے۔ وہ ٹرافی اٹھانے کے بعد میں نے کبھی خدا سے نہیں پوچھا کہ "میں ہی کیوں؟"۔


لہذا آج اگر مجھے درد مل رہا ہے، تو میں خدا سے شکوے شروع کر دوں کہ "میں ہی کیوں؟ "جب ہم نے اپنے اچھے وقتوں میں خدا سے 
کبھی نہیں پوچھا کہ" میں ہی کیوں" تو ہم برے وقتوں میں کیوں پوچھیں" میں ہی کیوں"۔
اس واقعہ کو سننے کے بعد ان کی آنکھوں سے جاری آنسو تھم چکے تھے۔ وہ میرے سامنے اس عزم کا اعادہ کر رہے تھے، وہ اب اللہ سے رجوع کریں گے۔ صبر، شکر اور دعا کو اپنا سہارا بنائیں گے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے تمام پریشان حال لوگوں کی مدد فرمائے۔ جن کے منہ سے تکلیف کے لمحوں میں اللہ کے لیے شکوہ ادا ہو جاتا ہے۔

No comments: