Thursday, December 14, 2017

ٹیکسیاں

افسانہ : ٹیکسیاں 

از قُربِ عبّاس




زینت کی کلائی میں چوڑیاں کھنکتی تھیں، مگر شاہد ان کی کھنک کو کب سنتا تھا وہ تو اپنے اندر بجنے والے سکّوں کی چھنکار کے تابع تھا۔

سورج کی ٹھنڈی روشنی کمرے میں داخل ہوچکی تھی۔ زینت نے آنکھیں کھولیں اور انگڑائی لی تو جسم پر طاری نیند کے خمار کی میٹھی سی تسکین کو محسوس کیا، چوڑیوں کی کھنک سے پہلو میں لیٹے شاہد کی آنکھ کھل تو گئی لیکن زینت نے جیسے ہی اپنا ہاتھ اس کے سینے پر رکھا تو شاہد کو یاد آیا کہ وہ اٹھتے ہی سگریٹ ضرور پیتا ہے، سو اُس نے سائیڈ ٹیبل سے سگریٹ اٹھایا اور سلگانے لگا۔ زینت کے ماتھے پر بل آئے:

"ضروری ہے کہ آنکھ کھلتے ہی آپ سگریٹ پئیں؟"

"ہوں۔۔۔" شاہد نے ہلکی سی آواز میں کہا اور گہرا کش لگایا۔

"اس کا دھواں مجھے چڑھتا ہے۔ "

"تو باہر چلی جایا کرو۔" شاہد نے لاپروائی کے ساتھ جواب دیا

جواب سن کر زینت نے سگریٹ چھیننے کی کوشش کی تو وہ جھنجھلا کر بولا:
"عجیب واہیات عورت ہو۔ بھئی اگر دھواں نہیں پسند تو باہر چلی جاؤ۔ ایسی بچگانہ حرکتیں کرتی اچھی نہیں لگتیں ۔ "

"بچگانہ نہیں ہے، میرے سر میں۔۔۔"

"میرے کپڑے رکھ دئیے تھے؟ " شاہد نے زینت کی بات سُنے بغیر سوال آگے رکھ دیا۔
"جی رکھ دیئے تھے۔ "

"اور جو ڈاکیومنٹس میں کل لے کر آیا تھا، وہ بھی؟"

"جی وہ بھی رکھ دئیے تھے۔ "

"ہوں۔۔۔ کپڑے استری کر دو، مجھے جلدی نکلنا ہے۔" شاہد نے بستر سے اٹھتے ہوئے کہا اور باتھ روم میں چلا گیا۔

زینت نے ریمورٹ اٹھا کر ٹی وی آن کیا تو ویمن ڈے کی خصوصی نشریات کا لوگو سکرین کے ایک طرف کونے میں گھوم رہا تھا اور ایک خوبصورت نوجوان عورت ہاتھ میں ٹیبلٹ لیے کہہ رہی تھی:

"دھرتی کی زرخیزی اور شہر کی خوشحالی کے لیے مصر کی عزّا اور بابل کی عشتار کے مندروں میں عورت کو ویشیا بنا کر بیٹھا تو دیا گیا مگر دورِِ حاضر میں عورت اپنا مقام سمجھ رہی ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے پاؤں پڑی مکار تہذیبوں کی آہنی زنجیر یں پگھل رہی ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب عورت کی عظمت کو ہر معاشرہ نا صرف تسلیم کرے گا بلکہ اسے اس کا اصل مقام بھی دینے پر مجبور ہو جائے گا۔
اُن عورتوں کو میرا سلام جو اپنے وجود کی پہچان رکھتی ہیں اور اُن عورتوں کے لیے ہمدردی جنھیں معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا ہیں۔"

زینت نے یہ چند جملے سن کر سر جھٹکا اور ٹی وی بند کر کے کپڑوں والی الماری کی جانب بڑھی۔
کپڑے استری کیے، جوتے پالش کیے، ایک مرتبہ پھر سے سارے سامان کا جائزہ لیا جو شاہد کی ضرورت کا تھا اور کچن میں جا کر ناشتہ بنانے لگی۔ شاہد نے نہا کر کپڑے پہنے اور میز پرناشتے کے لیے آ بیٹھا۔
ناشتے سے فارغ ہوکر اٹھا تو زینت نے پوچھا:

"آپ پنڈی کس کے گھر رکیں گے؟"

شاہد نے کاغذات کو دیکھتے ہوئے مختصر سا جواب دیا۔"ہے ایک دوست۔"

زینت برتن سمیٹتے ہوئے بولی " وہ۔۔۔ کہتے ہیں وہاں سے میوے سستے اور اچھے مل جاتے ہیں، اگر وقت ملے تو لیتے آئیے گا۔"

شاہد کلائی پر گھڑی باندھے ہوئے بیگ کی جانب بڑھا اور بولا "ہاں تمہارے میوے لینے ہی تو پنڈی جا رہا ہوں۔ "
یہ کہنے کے بعد وہ بیگ اٹھا کر دروازے کی طرف چل پڑا۔ زینت کچھ کہنے کے لیے پیچھے تک آئی ، اس کا منہ اور باہر کا دروازہ ایک ساتھ کھلے، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی دروازہ زور دار آواز میں بولا
"چُپ۔۔۔۔۔!"
اور زینت کا منہ بند ہوگیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

اچھا یہ رات بھی بہت بڑی کہانی باز ہے۔ اتنی بڑی کہانی باز کہ دن اس کے قصّے سنتا سنتا چکرا کر اس کی گود میں آگرتا ہے۔۔۔ دن رات کی آغوش میں گر چکا تھا۔۔۔ اندھیرے کا راستہ کاٹ کر روشنیاں پھیلنے لگی تھیں، سردی کی طرح بازار کا شور بھی عروج پر تھا اور پنڈی صدر کے ہجوم میں شاہد کی نگاہیں ٹیکسی تلاش کر رہی تھیں۔
ایک ٹیکسی اس کے قریب آ کر رکی، ڈرائیور نے سر نکال کر شاہد کو مخاطب کیا؛
"جی سر کدھر جانا ہے؟"

"کسی بھی مناسب سے ہوٹل میں لے چلو، جہاں رات ٹہرنے کا انتظام ہوجائے۔ "

ٹیکسی والے نے اپنی مونچوں کو تاؤ دیا اور بولا " ہوں۔۔۔۔ جی آجائیں۔ لے جائیں گے۔"

ٹیکسی میں سوار ہو کر شاہد نے ڈرائیور سے کہا " قریب ہی کسی مناسب ہوٹل میں لے چلو۔ بس رات ہی کاٹنی ہے۔"

"سر جی۔۔۔ ہوٹل بھی مل جائے گااور باقی سب کچھ بھی مل سکتا ہے۔۔۔ "

"باقی سب کچھ؟"

"پانی وانی، بچی شچی ۔۔۔"

"نہیں نہیں۔۔۔ اس کی ضرورت نہیں۔ بس میں تو۔۔۔"

"او چلو جی۔۔۔ میں نے تو ایسے ہی کہا۔ " ڈرائیور نے بات پلٹی

ٹیکسی چلنے لگی۔ ابھی کچھ ہی منٹ ہوئے تھے کہ سگنل پر رکنا پڑا، برابر ہی ایک پیلی ٹیکسی آ کر رکی جس میں منہ پر بے تکا میک اپ تھوپے کچھ عورتیں بھیڑ بکریوں کی طرح بھری ہوئی تھیں۔ شاہد نے اس طرف دیکھا تو ان میں سے دو مسکرانے لگیں۔
"یہ کیا طریقہ ہے، ایک ٹیکسی میں کس طرح سے یہ عورتیں بھری بیٹھی ہیں۔۔۔" شاہد انکی طرف دیکھتے ہوئے نیچی آواز میں بولا؛
" او جی شام ہوگئی ہے۔ ان کا کام شروع ہوگیا ہے۔ یہ ساری ایک ایک کر کے اترتی جائیں گی اور پھر رات گیارہ بارہ بجے تک ٹیکسی خالی۔" بتی ہری ہوئی تو گاڑی دوبارہ چلنے لگی۔

"اچھا۔۔۔۔ عجیب بات ہے۔ " شاہد نے بات آگے بڑھائی

"آپ کو ضرورت ہے تو بتائیں جی۔۔۔ ابھی میڈم کو فون کر لیتے ہیں۔ "

"نہیں نہیں۔۔۔ میں نے کیا کرنا ہے۔ "

"جو سارے کرتے ہیں" ڈرائیور نے بیک ویو میرر میں سے شاہد کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا۔

"یہ میڈم کون ہے؟"

"سر جی بچیاں سپلائی کرتی ہے۔ میرے پاس نمبر ہے اسکا۔"

"اچھا۔۔۔ کیا گاہک گھر لے جاتے ہیں؟"

"ہاں جی اور کدھر۔ پردیسی لوگ ہوٹل میں لے جاتے ہیں۔ "

"ہوٹل؟ مگر ہوٹل والے کیسے ۔۔۔"

ڈرائیور نے بات کاٹی "اوجی سب چلتا ہے۔ہوٹل والے کو کیا پتا کہ بیوی ہے یا ٹیکسی۔۔۔"
"ہاں یہ تو ہے۔" شاہد کے اندر سکّے چھنکنے لگے۔۔۔
"تو پھر کروں کال جی؟"

"کال۔۔۔ نن۔۔۔ نہیں رہنے دو" شاہد کچھ گھبرایا۔

"سر جی کچھ نہیں ہوتا۔ گرنٹی ہے میری" یہ کہہ کر ڈرائیور نے گاڑی ایک طرف لگائی اور موبائل نکال کر نمبر ملانے لگا۔

کچھ ہی دیر کے بعد آبادی سے کچھ دور دونوں ٹیکسیاں کھڑی تھیں اور شاہد اس ٹیکسی کے قریب کھڑا تھا جس میں بھیڑ بکریوں کی طرح عورتوں کو بھرا گیا تھا۔
ایک بے تحاشہ موٹی عورت 'میڈم ' جو فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی نے ٹارچ کی روشنی پیچھے بیٹھی عورتوں کے چہروں پر ڈالی، شاہد جھک کر دیکھنے لگا۔ ہر ایک اپنا منہ سامنے رکھ رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو "مجھے لے کر جانا۔۔۔ اسے نہیں۔۔۔ ادھر دیکھو مجھے۔۔۔" مگر ان پانچ میں سے ایک تمام باتوں سے بے نیاز بیٹھی دوسری طرف دیکھ رہی تھی۔ چہرے پر سنجیدگی تھی ، نین نقش تیکھے تھے، عمر جوانی اور ادھیڑ پن کے درمیان جھولا جھول رہی تھی لیکن آنکھوں میں چمک تھی ، اسے دیکھ کر شاہد کے سکّوں کی چھنکار اور تیز ہوئی۔ میڈم کو پیسے دے کر اسے اپنی ٹیکسی میں بیٹھا لیا۔۔۔
ایک ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لینے کے بعد شاہد اور وہ عورت جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے تو عورت نے ایک گہری سی انگڑائی لی ، اسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اتنی عورتوں کے درمیان پھنس کر بیٹھنے سے اسکی ہڈیاں آپس میں گڈمڈ ہوگئی تھیں اور اب اس انگڑائی کے بعد ساری کی ساری اپنی اپنی جگہ پر درست ہوئیں، چہرے پر ایک اطمینان سا اتر آیا ۔ صوفے پر بیٹھتے ہی اس نے اپنے پرس میں سے سگریٹ کی ڈبیا نکالی اور سگریٹ سلگانے لگی۔
شاہد اسکی طرف پلٹا "یہ کیا ہے۔۔۔؟"

"سگریٹ ہے اور کیا ہے؟"

"مگر تم عورت ہو اور اس وقت جب ۔۔۔"

"عورت ہوں تو؟ سگریٹ کی ڈبی پر لکھا ہوا ہے کہ 'صرف مردوں کے لیے'؟ اور اسکا کوئی وقت بھی ہوتا ہے؟"
اس نے سر جھٹکا اور ایک کش لگا کر پھر بولی " میں ناں ! اپنا کام شروع کرنے سے پہلے ایک سُوٹا تو ضرور لگاتی ہوں۔۔۔ "

شاہد نے اپنے ہونٹ بھینچے ، بیڈ پر بیٹھ کر جوتوں کے تسمے کھولے اس دوران وہ ایک طرف بیٹھی سکون کے ساتھ سگریٹ پیتی رہی۔ ہر کش گہرا لگاتی، پھر اس کا دھواں بہت آرام کے ساتھ منہ سے خارج کرتی اور ہونٹوں پر مسکان لیے اس دھوئیں کو فضا میں بکھرتا دیکھتی رہتی۔ جوتے اتارنے کے بعد شاہد بیڈ پر بیٹھا کڑھتا رہا، اسے ابھی سے اس کے منہ سے آنے والی دھوئیں کی ناگوار سی بو محسوس ہونے لگی تھی۔

"نام کیا ہے تمہارا؟"

"کیوں نام کا کیا کرنا ہے؟ " وہ مسکراتے ہوئے بولی اور سگریٹ بجھا کر شاہد کے قریب آبیٹھی؛
" میرا نام نوشی ہے۔
اور بھئی دیکھو۔ کوئی فالتو کی حرکت نہیں کرنے دوں گی، ہر بات نہیں مانوں گی اور پہلے بتا دوں کہ جو مرد جانوروں کی طرح کاٹتے ہیں وہ بلکل بھی اچھے نہیں لگتے۔ "

"ہدایات والی کوئی کتاب مجھے دے دو پڑھ کر شروع کرتےہیں"

شاہد کی بات سن کر نوشی نے زوردار قہقہہ لگایا ، آنکھوں میں اسی وقت ایک شرارت سی بھر گئی۔۔۔ شاہد نے قہقہے کی آواز سنتے ہی باہر کے دروازے کی جانب دیکھا۔۔۔ اور پھراس کے چہرے کی طرف ۔۔۔ اندر کے سکّوں کی چھنکار اس قہقہے کی سی سنائی دی ، وہ اس کی طرف کھسکا ، دونوں کاندھوں پر ہاتھ رکھے اور لبوں کو دیکھتا ہوا منہ قریب لے گیا۔۔۔ جیسے ہی شاہد قریب ہوا اسے بے حد تیز عِطر کی خوشبو محسوس ہوئی۔ وہ ناک سکیڑ کر پیچھے ہٹ گیا؛
"یہ کیا بے ہودہ سا پرفیوم ہے؟"

وہ سنجیدہ ہو کر بولی "جو میں نے لگایا ہے؟"

"ہاں تو اور کیا۔ اتنا گھٹیا۔۔۔ سر چکرا گیا میرا تو۔"

"سر تو چکرائے گا ۔۔۔ ہم غریب لوگ ہیں، سو پچاس کی شیشی لے سکتے ہیں، تمہاری طرح مہنگی مہنگی خوشبوئیں لگانے کی اوقات نہیں ناں۔" یہ کہہ کر وہ پھر شاہد کے قریب ہوئی۔۔۔

"ارے بھئی۔۔۔ نہیں! مجھ سے کچھ بھی نہ ہوگا ایسے تو۔۔۔ تمہارا پرفیوم بہت ہی واہیات قسم کا ہے۔ " شاہد نے اسے پرے دھکیلا

وہ مسکرائی۔۔۔ "صاحب اب خوشبو بدن سے اڑنے کا انتظار کروں پھر۔۔۔ "

"نہیں تم ایسا کرو ۔۔۔ کہ نہا لو۔۔۔"

"اتنی سردی میں؟ نہ بھئی یہ تو نہیں ہوگا۔ ویسے بھی کام پر نکلنے سے پہلے نہا کر آئی ہوں۔"

"مگر میں ایسے کچھ کر نہیں سکتا۔ یہ کام کرنا ہے تو کم از کم تمہیں پرفیوم ہی اچھالگانا چاہیئے ۔"

اس مرتبہ وہ ہنسی "اے ہَے۔۔ ۔ سارے پیسے خوشبو کی شیشی پر لگا دوں۔ گھر کچھ نہ بھیجوں۔ ایک باری لگو تو سہی تھوڑی دیر کے بعدیہ خوشبو کچھ نہیں کہے گی۔ "

"تھوڑی دیر کے بعد کچھ نہیں کہے گی۔۔۔ بکواس! تم بس نہا لو۔۔۔"

"کمال کرتے ہو جی۔۔۔ اتنی سردی میں نہا لو، نہالو۔۔۔ ایک ہی رٹ لگائی ہے۔ تم نہا کر دکھا ؤ تو مجھے۔" وہ تلخ لہجے میں بولی

"میں کس لیے نہاؤں۔۔۔؟ "

"کیوں کہ مجھے تم سے بدبو آرہی ہے سچ کہوں تو۔ میں نے تو پھر بھی کچھ نہیں کہا۔ کیوں کہ میرا تو کام ہے ۔تم سے بھی گندے بدبودار اور شکل کے گھٹیا لوگوں سے کبھی نہیں کہا اور تم کیسے ہو جو کہتے ہو نہا لو۔ سردی نہ ہوتی تو مان بھی لیتی۔ "

"بہت بد زبان عورت ہو تم تو۔۔۔"

وہ کھلکھلا کر ہنس دی "صاحب۔۔۔ عورت بدزبان ہی ہوتی ہے۔۔۔ عورت بدزبان ہی ہوتی ہے جب اپنے دل کی کہتی ہے۔۔۔"

"دل کی۔۔۔ نہیں تم ہو ہی عورت کی گھٹیا قسم ۔۔۔"

وہ پھر ہنسی " صاحب۔۔۔ عورت تو ایک قسم کی ہی ہے، اس کو قسموں میں تم نے بانٹا ہے۔ ورنہ عورت تو عورت ہی ہے۔ تمہارا قصور نہیں، تم شریف نظر آتے ہو۔ اور تم جیسے شریف اپنی بیویوں کے بگاڑے ہوئے ہوتے ہیں۔۔۔ لگتا ہے تمہاری بیوی بھی جی جی کر کے آگے پیچھے گھومتی ہوگی۔۔۔ وہ بے چاری ہوتی ناں تو ابھی جا کر ٹھنڈے پانی میں ڈبکیاں لگا کر آتی۔۔۔"

شاہد کے ماتھے کے بل بڑھ گئے ۔۔۔ "خبردار اپنی ناپاک زبان سے میری بیوی کا ذکر بھی مت کرو۔ وہ شریف عورت ہے اور تم۔۔۔"

"اور میں ایک بدنام۔۔۔ بری، ناپاک۔۔۔ لوفر۔۔۔ رنڈی۔۔۔ گشتی۔۔۔ ٹیکسی۔۔۔سب کی جھوٹی مو ٹی معشوقہ ۔۔۔ اور وہ صرف ایک شریف عورت۔۔۔۔" اس کی ہنسی میں طنز تھا۔۔۔

اب بھلاسماج جس کو دیوتا ہونے کی سند دے وہ کسی داسی کی زبان سے ہونے والے اس قدر گہرے وار کیسے سہہ سکتا ہے ؟ یہ کیفیت اسے مسلسل توڑ رہی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس عورت کو بالوں سے پکڑ ے اور گھسیٹ کر باہر نکال دے، وہ چاہتا تھا کہ اپنی آواز کی دھمک سے اس کی تیکھی اور ترش باتوں کو دبا لے۔۔۔ لیکن یہ ممکن نہ تھا۔اسے تو اپنی آواز بھی کمرے میں سے باہر نکلتی محسوس ہو تی تو وہ دھیمی کر لیتا۔
بس اتنا کہہ سکا۔ "مجھے تمہارے ساتھ کچھ نہیں کرنا ، میرے پیسے واپس کرو اور دفع ہو جاؤ۔"

وہ کچھ دیر اس کے چہرے کو تکتی رہی اور پھراپنا پرس اس کے سامنے کرتی ہوئی بولی "لو۔۔۔ جتنے پیسے نکلتے ہیں نکال لو۔۔۔ " چہرے پر ایک سنجیدگی تھی اور آنکھوں میں غصے کی جھلک ۔

شاہد نے اس کی طرف نہ دیکھا اور بولا "خود نکلا دو۔۔۔"

نوشی نے پرس میں سے کچھ پیسے نکالے اور شاہد کے طرف بڑھا کر بولی " بس اتنے ہی ہیں۔ "

کم پیسوں دیکھ کر شاہد نے کہا " یہ بھی نہیں چاہئیں۔ "

"کیوں؟ کیوں کہ یہ ناپاک ہیں؟ رکھ لو رکھ لو۔۔۔ تم جیسے شریفوں کے پاس سے ہی ملے ہیں۔"

"چلو تمہیں شریف اور بے غیرت کا فرق تو پتا ہے۔ " شاہد کی نظروں میں ایک حقارت تھی۔

"ہاں، ایسا ہی ہے جی۔۔۔ ہم گندی ہیں۔ کیوں کہ تمہاری بیویوں جیسی نہیں ہیں ناں۔ اور یہ بھی اچھا ہے کہ ہم ان جیسی نہیں ہیں۔ کیوں کہ ہم کچھ دیر کے لیے اپنا جسم بیچتی ہیں۔ اس کے بعد آزاد ہوتی ہیں۔ ہم کسی بازار میں جائیں، کسی مرد سے آنکھ لڑائیں، ہنسیں کھیلیں ہمیں روکنے والا کوئی نہیں۔۔۔ پر ایک بات کہوں صاحب جی؟ اصل ٹیکسیاں تو تمہاری بیویاں ہوتی ہیں، جو روٹی کپڑا مکان اور نام کی خاطر اپنا جسم بیچتی ہیں اور ساتھ اپنی مرضی بھی۔ وہ تو سوتی بھی تمہاری مرضی سے ہیں، جاگتی بھی تمہاری مرضی سے ہیں، بولتی بھی تمہاری مرضی سے ہیں، ہنستی بھی تمہاری مرضی سے ہیں، باہر کی ہوا بھی تمہاری مرضی سے کھاتی ہیں، جیتی بھی تمہاری مرضی سے ہیں۔۔۔ ہم بیویاں نہیں ہیں صاحب جی۔۔۔ تمہاری مرضی ہم پر نہیں چلتی ناں۔۔۔ اسی لیے تو تم شریفوں کو اچھی نہیں لگتیں۔۔۔"

دونوں کے بیچ میں کچھ پل کی خاموشی رہی ، شاہد آنکھیں بڑی کیے اسے دیکھتا رہا ۔وہ پھر مدھم سی آواز میں بولی:
" یہ سستے عطر شروع شروع میں ہمیں بھی اچھے نہیں لگتے۔۔۔ لیکن صاحب جی بعد میں ناں بُرے بھی نہیں رہتے۔۔۔ کیوں کہ انکی خوشبو تیز ہے۔۔۔ اور آزاد بھی۔۔۔
ہماری ناں ۔۔۔زندگی میں بہت دکھ ہیں پر اتنے گِلے نہیں ۔ اتنا وقت ہنسنے میں گزرا ہے کچھ دیر کے لیے رو بھی لیا تو کیا ہوگیا۔۔۔۔؟ ہنسنا ہو کہ رونا۔۔۔ اس میں مرضی تو اپنی ہے ناں۔۔۔
ویسے پتا ہے کیا۔۔۔ بیوی اور ٹیکسی۔۔۔ دونوں ہی ٹوٹی پھوٹی اور خالی عورتیں ہیں۔۔۔ فرق بس اتنا ہے کہ ایک کو پوری عمر کے لیے ایک ہی مرد خرید لیتا ہے ۔۔۔ اور مجھ جیسی روٹی کی خاطر رو ز بکتی ہے۔۔۔ "

یہ کہتے ہوئے کمرے کے سرد ماحول میں نوشی نے محسوس کیا کہ جلتا ہوا پانی کا ایک قطرہ اس کی آنکھ میں سے نکل کر گال پر آیا ہے، وہ مسکرائی اور اپنی ہتھیلی سے رخسار خشک کیا ادھر شاہد کے چہرے سے بھی حقارت کے تاثرات ختم ہوچکے تھے، آنکھیں سکڑ کر نیچے ڈھلک چکی تھیں، اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن نوشی نے اپنی بات جاری رکھی؛
"پر دل خوش ہوتا ہے جب کسی ایسی عورت کو دیکھتی ہوں جو ٹیکسی ہے نا بیوی۔۔۔ صرف عورت ہے۔۔۔ اندر باہر سے۔۔۔مکمل عورت۔۔۔ نیچے سے اوپر تک۔۔۔جس کا جسم خریدا جاتا ہے نا مرضی۔۔۔"

اس ایک ساعت کے لیے کمرے کی ہر شے پر مکمل سکوت طاری ہوچکا تھا۔ رات جیسی کہانی باز بھی اپنی گہرائی بھول چکی تھی، اپنا اثر کھو چکی تھی۔۔۔ نوشی نے سرد آہ کے ساتھ ماحول کے سحر کو توڑا اور اٹھتے ہوئے بولی:
"اور رکھ لویہ پیسے ۔۔۔ ڈرو مت۔۔۔ پاک ہیں، صاف ہیں، اگر نوٹوں میں ہمارے گندے بلاؤز کی بدبو ہو بھی تو کون پہچانے گا۔۔۔؟ وہی ناں۔۔۔ جس نے ہمیں سونگھ رکھا ہے۔۔۔۔؟"

یہ کہہ کر اس نے آزاد ، لا پرواہ لیکن کچھ کچھ جھوٹا قہقہہ لگایا اور باہر کے دروازے کی جانب چلنے لگی شاہد بھی اٹھ کھڑا ہوا نوشی کی طرف قدم بڑھایا ، شاہد کا منہ اور باہر کا دروازہ ایک ساتھ کھلے مگر اس سے پہلے کہ کوئی لفظ اس کے منہ سے نکلتا، دروازہ زوردار آواز میں بولا؛
"چُپ۔۔۔!"

اُس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور اندر موجود سکے ایک ایک کر کے زمین پر گرنے لگے۔۔۔

چھنکار سے خالی۔۔۔

بے وزن۔۔۔

اور کھوٹے سکّے۔۔۔

Saturday, December 9, 2017

غزوہ ہند

جو ہونا وہ سب حدیث مبارک سے ثابت ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا وقت غزوہ ہند جو جاری ہے اس میں شرکت کریں۔ جنگ کا نام سن کر ہمارے ذہنوں میں ہتھیار اور میدان آتا ہے مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ جس طرح وقت کے ساتھ حالات کے مطابق اشکال بدلتے ہیں اس طرح جنگ کی صورتیں بھی بدلی ہیں۔ پتھروں کے دور میں جنگ پتھروں سے ہی ہوتا تھا مگر وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ لوہا اور ایٹم تک بات پہنچیں اور اب موجودہ دور تو ہم سب جانتے ہیں کہ پانچویں نسل کی جنگ جاری ہے۔ اب یہ کہنا کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں تو ہمیں ایٹم بم کا استعمال کرنا ہے اور اس انتظار میں بیٹھ کر اپنا وقت ضائع کریں ۔ جب اس کی ضرورت ہوگی ہم کریں گے مگر جو جنگ جاری ہے اس کیلئے  ہمارے پاس ایٹم بم سے بھی بڑی ہتھیار ہماری سوچ اور طریقہ زندگی ہے۔جس پر حملہ ہوچکا ہے۔ اب اس کا جواب ہم ایٹم بم سے تو نہیں دے سکتے ہر ہتھیار کا توڑ اس سے مظبوط ہونا لازم ہے۔ جتنی سوچ مظبوط ہوگی اتنا اس کو قابو کرنا مشکل۔ فیفتھ جینریشن وار کا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہماری رہنمائی اللہ تعالی نے قرآن میں فرمائی ہے اور اس پر عمل کرنے کیلیے حضور ص کی زندگی موجود ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ غزوہ ہند کے مجاہدین کا حشر جنگ بدر کے اصحاب کرام ر کے ساتھ ہوگا۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہے جس میں میں وضاحت کر سکوں کہ جنگ بدر اسلام کی پہلی جنگ تھی اس وقت اسلام کی شروعات تھی اور ابھی نماز روضہ حج ذکات کے احکامات صادر ہونے تھے۔ اور غزوہ ہند اسلام کی آخری جنگ کی نشانی ہے اور اسلام کے تقریبا احکامات عملی زندگی سے نکل چکی ہیں جب سے فیفتھ جنریشن وار کا حملہ ہوا ہے۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو امام مہدی کو دیکھیں گے۔ اور کیا خوبصورت مقام ہے ان لوگوں کا۔ اب ہم کیا ہیں ہم اسی سوچ میں مبتلا ہوجاتے ہیں مگر دل میں ایک خوائش ضرور آتی ہے کہ ہم بھی اس جنگ کا حصہ بنے یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔ اس بات پر مجھے حضرت ابراھیم ع کا واقعہ کا ایک حصہ یاد آتا ہے کہ پرندہ منہ میں پانی لاکر آگ بجانے کی کوشش کرتا ہے صرف اس بات کیلئے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی کو جواب دے سکے کہ میں نے اپنی ذات اور اوقات کے مطابق کوشیش کی۔اور پھیر اللہ رب العزت کی شان ہے وہ ہمارے اعمال سے زیادہ ہمارے نیتوں کو دیکھتا ہے۔ اگر اس دور میں ہم اخلاص کے ساتھ اس جنگ کا حصہ اس پرندے کی طرح بنے تو اگر ہم نہیں تو ہماری نسل لازمی امام مہدی کی فوج بنے گی اور کیا معلوم اللہ کے رحم کا کہ ہماری نیت اتنا اچھا ہو کہ ہمیں بھی موقع ملیں۔ جنگ بدر کے اصحاب میں کسی کے پاس تلوار تو کسی کے پاس لکڑی کسی کے پاس گھوڑا تو کوئی پیدل مگر ایک چیز جو سب کے پاس تھی وہ تھی  ایمان اور اخلاص۔ تو اخلاص کے ساتھ پرندے کی طرح میں اس کو آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔

Wednesday, December 6, 2017


میں جا رہی ہوں لیکن میں چاہتی ہوں تم مکافات عمل کو سہو



میں بہت پیار کرتی ہوں تم سے ۔۔اللّه کے لئے دھوکہ مت دو مجھے ۔۔فون میں دبی دبی سی سسکیاں ابھر رہی تھی ۔۔اس نے کوفت سے رسیور کو دیکھا اور کڑوے لہجے میں بولا تھا ۔۔تو میں کیا کروں ۔۔دل بھر گیا ہے میرا تم سے ۔۔آئندہ مجھے فون مت کرنا ۔۔سنا تم نے ۔۔اور فون رکھ دیا ۔۔تین دن بعد اسے اسکی موت کی خبر ملی ۔۔جسے اس نے اک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیا ۔۔اور اگلے دن ایک خط ملا ۔۔ سادہ کاغذ پر صرف ایک لائن لکھی تھی
 "میں جا رہی ہوں لیکن میں چاہتی ہوں تم مکافات عمل کو سہو"
 جانے کیوں اس نے وہ کاغذ سنبھال لیا تھا ۔
 
٢٥ سال بعد
 
اپنی بے حد لاڈلی اور خوبصورت 21 سالہ بیٹی کے کمرے کے سامنے سے گزرتے آواز سنائی دی۔۔" میں بہت پیار کرتی تم سے۔۔اللّه کے لئے دھوکہ مت دو مجھے"۔۔آگے سے جانے کیا کہا گیا تھا ۔۔اسکی بیٹی پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی ۔۔۔جانے کیا یاد آیا تھا کہ وہ کانپ گیا۔۔اگلے تین دن اس نے آفس سے چھٹی لی اور اپنے گھر میں قید ہو کر اپنی راج دلاری کے ساتھ گزارے ۔۔بظاہر ہنستی مسکراتی اسکی جان کا ٹکڑا۔۔وہ کتنی بار رو پڑا تھا۔۔چوتھے دن کچھ سکون سے آفس گیا کہ پیچھے سے بیوی کا فون کہ گڑیا کو کچھ ہو گیا ہے ۔۔بھاگا بھاگا گھر آیا ۔۔۔سامنے بیٹی کی نیلی لاش تھی ۔۔۔بیٹی کی لاش کے پاس بیٹھا وہ چیخ چیخ کر رو رہا تھا ۔۔ہاتھ میں ایک پرانا سا کاغذ تھا جس پر مٹا مٹا سا لکھا تھا

 "میں جا رہی ہوں لیکن میں چاہتی ہوں تم مکافات عمل کو سہو "

Tuesday, December 5, 2017

میں ہی کیوں



میرے ایک عزیز کا چند ماہ پہلے ایک حادثے میں بازو ٹوٹ گیا۔ شروع میں ایک ہڈی و جوڑ کے ماہر سے علاج کرواتے رہے۔ ان کے بازو کا جب پلستر اترا اور ایکسرے ہوا تو پتہ چلا کہ ہڈی ابھی تک ٹوٹی ہوئی ہے۔ پلستر کے باوجود جڑ نہ سکی۔ ان کا آپریشن ہوا اور بازو ٹھیک ہو گیا،وہ اس دوران شدید تکلیف میں رہے۔


ابھی ان کا بازو ٹھیک ہوئے چند روز ہی گزرے تھے کہ ان کو دل کا دورہ پڑا اور وہ کئی روز ہسپتال میں داخل رہے۔ دل کے عارضے سے تقریبا مرجھا سے گئے اور ہر وقت پریشان سے رہنے لگے اور تقریبا ڈپریشن کا شکار ہو گئے۔ وہ پہلے ذیابیطس کے مریض نہ تھے۔ ہر وقت کی ٹینشن نے انہیں شوگر کے مرض کا تحفہ دے دیا۔
ابھی چند دن پہلے میری ان سے ملاقات ہوئی تو حد درجہ مایوس نظر آئے۔ مایوسی نے ان کو شدید طرح سے گھیر رکھا تھا۔ دوران ملاقات انہوں نے بتایا کہ وہ ان دنوں ایک اور مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ ان کے ایک گردے میں پتھری ہے۔ وہ دو روز سے کڈنی سنٹر میں اپنے معالج کے پاس جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ دوا سے ہی یہ پتھری خارج ہو جائے گی۔ یہ بتانے کے بعد ہی میرے وہ عزیز دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ ان کے اس انداز کے رونے نے مجھے بھی غمزدہ کردیا۔ میں نے انہیں تسلی و دلاسا دیا اور مشورہ دیا کہ اس موقع پر وہ اللہ سے اپنا رابطہ بڑھائیں، اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگیں۔ اللہ انہیں اس مشکل سے ضرور نکالے گا۔ وہ روتے روتے آنسوؤں سے منہ دھوتے ہوئے پوچھنے لگے کہ یہ تکلیفیں میرے لیے ہی کیوں؟میں ہی کیوں۔۔۔۔؟
اس موقع پر مجھے کافی عرصہ پہلے کسی جگہ پڑھا ایک واقعہ یاد آگیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ آرتھر آشے امریکہ کا نمبر ون ٹینس پلیئر تھا۔ وہ عوام میں بے حد مقبول تھا، اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ وہ عالمی سطح کا ایک مقبول اور بہترین کھلاڑی تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب آپ کسی بھی شعبہ میں سب سے بہترین کے درجے پر پہنچتے اور عروج حاصل کر لیتے ہیں تو آپ ہر خاص و عام کے ہر دل عزیز بن جاتے ہیں۔ دلوں کی دھڑکن کا درجہ پا لیتے ہیں ۔ اسی طرح آرتھر کو ایک حادثے کے بعد ہسپتال میں انتہائی غفلت کے ساتھ معالجین نے ایڈز کے مریض کا خون لگا دیا گیا، جس کے عوض آرتھر کو بھی ایڈز ہو گیا۔
جب وہ بستر مرگ پر تھا، اسے دنیا بھر سے اس کے چاہنے عالوں اور پرستاروں کے خطوط آتے تھے۔ اس کے ایک مداح نے خط بھیجا، جس میں لکھا ہوا تھا،
" خدا نے اس خوف ناک بیماری کے لیے تمہیں ہی کیوں چنا؟"
آرتھر نے صرف اس ایک خط کا جواب دیا جو کہ یہ تھا۔
"دنیا بھر میں پانچ کروڑ سے زائد بچے ٹینس کھیلنا شروع کرتے ہیں اور ان میں سے پچاس لاکھ ٹینس کھیلنا سیکھ پاتے ہیں۔ ان پچاس لاکھ میں سے پچاس ہزار ہی ٹینس کے سرکل میں داخل ہوتے ہیں۔ جہاں ڈومیسٹک سے انٹرنیشنل لیول تک کھیل پاتے ہیں۔ ان پچاس ہزار میں سے پانچ ہزار ہیں جو گرینڈ سلام تک پہنچ پاتے ہیں۔ ان پچاس ہزار میں سے پچاس ہی ہیں جو ومبلڈن تک پہنچتے ہیں، اور ان پچاس میں سے محض چار ہوتے ہیں جو ومبلڈن کے سیمی فائنل تک پہنچ پاتے ہیں۔ ان چار کھلاڑیوں میں سے صرف دو کھلاڑی ہی فائنل تک پہنچ پاتے ہیں۔ ان دو میں سے محض ایک ہی فاتح قرار پاتا اور ٹرافی اٹھاتا ہے۔ یاد رہے کہ وہ ٹرافی جیتنے والا پانچ کروڑ میں سے چنا جاتا ہے۔ وہ ٹرافی اٹھانے کے بعد میں نے کبھی خدا سے نہیں پوچھا کہ "میں ہی کیوں؟"۔


لہذا آج اگر مجھے درد مل رہا ہے، تو میں خدا سے شکوے شروع کر دوں کہ "میں ہی کیوں؟ "جب ہم نے اپنے اچھے وقتوں میں خدا سے 
کبھی نہیں پوچھا کہ" میں ہی کیوں" تو ہم برے وقتوں میں کیوں پوچھیں" میں ہی کیوں"۔
اس واقعہ کو سننے کے بعد ان کی آنکھوں سے جاری آنسو تھم چکے تھے۔ وہ میرے سامنے اس عزم کا اعادہ کر رہے تھے، وہ اب اللہ سے رجوع کریں گے۔ صبر، شکر اور دعا کو اپنا سہارا بنائیں گے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے تمام پریشان حال لوگوں کی مدد فرمائے۔ جن کے منہ سے تکلیف کے لمحوں میں اللہ کے لیے شکوہ ادا ہو جاتا ہے۔